اداکار رایلف فائنز نے ہولوکاسٹ سے متعلق کئی فلموں میں کام کیا ہے۔ اس پوڈکاسٹ میں وہ آسکر ایوارڈ جیتنے والی فلم شنڈلرز لسٹ. میں ایس ایس افسر ایمن گوئیتھ کی حیثیت سے اپنے کردار کے بارے میں صحافی باب وڈورڈ سے بات کررہے ہيں۔
Transcript
الیسا فشمین: سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونیٹیڈ اسٹیٹس ھولوکاسٹ میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز ہے جو اولیور اور الیزابیتھ اسٹینٹن فاؤنڈیشن کی بھرپور حمایت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ میں آپ کی میزبان الیسا فشمین ہوں۔ اس ہفتے کا پوڈ کاست کچھ مختلف ہے۔ آپ اداکار رالف فائینز اور صحافی باب وڈورڈ کے درمیان گفتگو سننے والے ہيں، جسے یہاں ہولوکاسٹ میوزیم میں ایک لائیو آڈینس کے ساتھ ریکارڈ کیا گيا تھا۔ فائینز ہولوکاسٹ کے بارے میں متعدد فلموں میں کردار ادا کرچکے ہيں۔ اس پوڈ کاسٹ میں وہ آسکر ایوارڈ جیتنے والی فلم شنڈلرز لسٹ میں ایس ایس افسر ایمن گوئیتھ کی حیثیت سے اپنے کردار کے بارے میں بات کررہے ہيں۔
یونائیٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزم کی طرف سے یہ ہیں رالف فائینز اور باب وڈورڈ ۔
باب وڈورڈ: ہميں یہ بتائيں کہ آپ کو نازی کمانڈنٹ ایمن گوئیتھ کا کردار کس طرح ملا۔
رالف فائینز: سٹیون سپیلبرگ فلم کے کردار کی کاسٹنگ کے لئے لندن میں تھے، اور مجھے ان سے ملاقات کرنے کے لئے بلایا گیا تھا، اور میں نے اُن سے غیر رسمی طور پر ملاقات کی۔ میں نے تھامس کنیلی کی کتاب شینڈلرز آرک پڑھ لی تھی۔ میں نے اسے پڑھا، اور مجھے یہ نہيں معلوم تھا کہ مجھے کس کے لئے بلایا جا رہا ہے، شنڈلر یا ایمن گوئیتھ کے لئے۔ اور پھر کچھ دن بعد، مجھے ایک صفحہ دیا گيا، جو درحقیقت ایک تقریر کی شکل میں اسکرین پلے کی مختلف لائنوں کا امتزاج تھا، اور میں خود سے لندن کے ایک ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں چلا گیا، جہاں میں نے تقریر کے لئے ایک کیمرہ مین کی مدد سے خود کو ہدایات دیں۔ یہ میری پہلی فلمی ہدایات تھیں۔ اورمیں نے ٹیسٹ ارسال کردیا، اور مجھے یاد ہے کہ صبح سویرے لاس اینجلس سے یہ کہنے کے لئے فون آیا "تمہیں کردار مل گیا ہے۔" اور ظاہر ہے کہ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہيں تھا۔ اور بس یہی تھا۔
باب وڈورڈ: یہ کردار ادا کرتے ہوئے آپ نے برائی کے بارے میں کیا سیکھا؟
رالف فائینز بس، یہ روز مرہ کی بات ہے۔ برائی مجموعی حیثیت میں ہوتی ہے۔ یہ ہوتی رہتی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ انہيں کام کرنا ہے، انہوں نے ایک نظریہ اپنانا ہے، انہوں نے ایک زندگی گزارنی ہے؛ انہیں زندہ رہنا ہے، کام کرنا ہے، یہ روزانہ درجہ بہ درجہ چھوٹے چھوٹے سمجھوتے ہيں، خود کو بتانے کے چھوٹے طریقے ہيں کہ آپ نے اپنی زندگی گزارنی ہے، اور پھر اچانک یہ چيزیں ہوسکتی ہيں۔ میرا مطلب ہے، کہ میں نجی طور پر فیصلہ کرسکتا ہوں کہ یہ ایک برا، بد، ہولناک آدمی ہے۔ لیکن میرا کام اُس آدمی کی شخصیت کو اجاگر کرنا تھا۔ اس میں کسی حد تک معمولی پن تھا، ایک روزمرہ سی بات تھی، جو مجھے لگتا کہ یہ ضروری تھا۔ اور یہ اسکرین پلے میں تھا۔ درحقیقت، اوسکر شنڈلر، یعنی کہ لیام نیسن کے ساتھ شروع کے مناظر میں ایک ایسا سین تھا جہاں میں کہہ رہا ہوں "تم نہيں سمجھتے کتنا مشکل ہے، مجھے خاردار تاروں کے کتنے میٹر اور کتنے فنسنگ میٹر آرڈر کرنے ہوتے ہيں۔ اور مجھے کتنے لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا ہوتا ہے" اور، آپ کو معلوم ہوگا، وہ اپنے کام میں درپیش مشکلات کے متعلق اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا ہے۔ اور لہذا مجھے لگتا ہے کہ آپ پیچھے ہٹ سکتے ہيں، اور برائی یہیں ہوتی ہے، جب آپ پیچھے ہٹ کر اسے دیکھ سکیں۔
باب وڈورڈ: کیا گوئیتھ کی زندگی میں ایسی کچھ چیزیں ہيں - آپ نے واقعی ان کی زندگی کے بارے میں تحقیق کی تھی؟ آپ نے مطالعہ کیا تھا اور آپ نے اپنے آپ کو اس میں سمو لیا تھا۔ کیا آپ کو ان کے ایسے کسی اقدام کے بارے میں معلوم ہوا جسے فلم میں نہيں دکھایا گیا تھا، لیکن جو اس سے زیادہ ہولناک تھا؟
رالف فاینز: مجھے یاد ہے کہ زندہ بچنے والے افراد نے انہيں دیکھ کر اپنے اوپر طاری ہونے والی دہشت کے بارے میں بتایا تھا، انہوں نے پلاسزو کے لوگوں کو دہشت زدہ کر رکھا تھا۔ ان کے بارے میں کئی کہانیاں صرف اس جسمانی خوف کے بارے میں تھی جو لوگ انہيں دیکھ کر محسوس کرتے تھے۔
باب وڈورڈ: ابھی جو اس وقت دنیا میں شدت پسندی ہے - ہر طرف، خاص طور پر جہادیوں میں، جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ خودکشی بھی کرتے ہيں - کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہم ایک ایسی نسل کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں، جو بحیثیت انسان آپ کے لئے فکر کا باعث ہو؟
رالف فاینز: مجھے لگتا ہے کہ کسی کو معلوم نہيں ہوا کہ بات کیا ہے، کہ ایک پوری قوم ایک آواز کو چند خیالات سے متاثر ہوکر یہ سمجھنے لگے یہ کسی دوسری نسل اور کسی دوسری ثقافت کو تباہ کرنا یا ختم کرنا صحیح ہوسکتا ہے۔ اور یہ اس کے بعد بھی ہوچکا ہے، کمبوڈیا میں، اور اسٹیلن کے روس کا انخلا بھی نسل کشی کی ایک قسم ہی ہے۔ اور میرے خیال میں ہم تمام ملکوں میں شدت پسند خیالات دیکھ سکتے ہیں۔ اور اس کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔ ہولناک اور تباہ کن نتائج رکھنے والے شدت پسند عقائد کا ردعمل ویسا ہی ہوتا ہے یا اس سے برا ہوتا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ ہمیں اس کا احساس ہونے سے پہلے ہی وہ آہستہ آہستہ ہم پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔
باب وڈورڈ: آپ نے کہا تھا، کہ جب آپ اس طرح کا کوئی کردار ادا کرتے ہيں، آپ کو اس کی کوئی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ کیا تھا؟ اور یہ بتائیں کہ آپ نے کس طرح کیا تھا؟ اس بارے میں بتائیں۔
رالف فائینز: آپ اپنے خیالات کی جس مہم پر نکلتے ہيں، اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ہر اداکار کے پاس اپنے طریقہ کار کے بارے میں مختلف خیال ہوگا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اپنے آپ میں اس چیز کو تلاش کرنا ایک اچھی بنیاد ہے، جو وہی چیز کرتی ہے جو آپ کا کردار کررہا ہو، یا سوچ رہا ہو یا محسوس کررہا ہو۔ میرا مطلب ہے کہ اگر میرے خیال میں میرے دماغ میں کسی چیز کی کمی ہوگی، میں نے یہ تصور کرلیا کہ اس میں بھی کسی چیز کی کمی ہے۔ وہ بہت شراب پیتا تھا، وہ کھانا بہت کھاتا تھا، اور یہ وہ چیزیں ہوسکتی ہے جو لوگ اپنے آپ کو سنجیدہ رکھنے کے لئے کرتے ہوں۔ لیکن یہ باتیں شاید اس کے لئے بہانہ پیش کرتی ہوں۔ معلوم نہیں، میرا مطلب ہے، مجھے معلوم نہیں۔
باب وڈورڈ: کیا آپ کو یہ کردار ادا کرنے کے لئے خوبصورت ہونے کی ضرورت ہے؟
رالف فائینز: مجھے تو نہیں لگتا, نہیں.
باب وڈورڈ: مگر اس وجاہت اور خوبصورتی میں ایک یکسانیت ہوتی ہے۔ میرا مطلب ہے، اس کے بارے میں کچھ بات کریں کیونکہ یہ اُس چیز کو اجاگر کرتا ہے جو ہو رہی ہوتی ہے۔
رالف فائینز: اچھا، مجھے لگتا ہے کہ یونیفارم، یعنی ایس ایس کے یونیفارم اور گسٹاپو کے یونیفارم کو ڈیزائن کیا گيا تھا، میرے خیال سے انہيں تھیٹر ڈیزائنروں نے ڈيزائن کیا تھا۔ انہيں اثر ڈالنے کے لئے بنایا گيا تھا۔ انہیں کاٹنے کا طریقہ، ان کی ٹوپیاں، ٹوپیاں جس طرح اونچی ہوتی تھیں۔ اس سب کو میرے خیال میں ڈیزائن کیا گیا تھا۔ بصری فروغ کے لئے گوئیبلز اور نازی پارٹی کے مامور لوگوں نے جس پیغام کی یشہیر کی تھی، اسے بہترین طریقے سے کیا گيا تھا، جو کافی پریشان کن بھی تھا۔
باب وڈورڈ: میں نے کافی مواد پڑھا ہے، اور شینڈلرز لسٹ کی واحد تنقید، جو کافی دلچسپ بھی تھی، کیونکہ فلم کی، اور آپ کی کارکردگی اور اسپیلبرگ اور ہر ایک چیز کی ہر جگہ تعریف کی گئی تھی - لیکن ایک تنقید یہ تھی کہ ایمن گوئیتھ کو ایک شقی کردار بنا کر ہولوکاسٹ کی حقیقت کو بگاڑا گیا تھا۔ یہ کہ ہولوکاسٹ کئی دماغی خلل نہ رکھنے والے افراد پر مشتمل تھا جو صرف غیراہم کردار ادا کررہے تھے۔ اور ان کا کہنا یہ تھا کہ اس پیشکش کی وجہ سے نسل کشی اپنی واضح دہشت سے پاک ہوجاتی ہے۔ کیا اس بات میں کوئی حقیقت ہے؟
رالف فائینز: مجھے لگتا ہے، ہاں۔ میرا خیال ہے کہ اس میں کچھ حقیقت ہے۔ میرا مطلب ہے کہ میرے خیال میں ہوسکتا ہے کہ ایمن گوئیتھ کے دماغ میں کوئی خلل نہ ہو، میرا مطلب ہے کہ یہ چیزیں روزمرہ کا معمول بن جاتی ہيں۔
باب وڈورڈ: آپ کا شکریہ۔
رالف فائینز: آپ کا بہت شکریہ۔