سعدیہ شیپرڈ اپنی کتاب دی گرل فرام فارن میں بھارت کی چھوٹی یہودی برادری اور اپنے خاندان کی تاریخ کے بارے میں بتاتی ہيں۔ سفر اور کتاب دونوں ہی کی وجہ سے انہیں بھارت کے یہودی، مسلمان اور ہندوؤں کے درمیان تعلقات کے بارے میں منفرد رائے قائم کرنے کا موقع ملا
Transcript
سعدیہ شیپرڈ: میرے خیال میں بنی اسرائیل جیسی برادریاں ہمیں سکھا سکتی ہیں کہ مختلف روایات سے متاثر ہونا طاقت کا باعث بن سکتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے شاید ہم اپنے آپ کو مزید مضبوطی کے ساتھ واضح کرسکتے ہيں۔
ایلیسا فش مین: سعدیہ شیپرڈ اپنی کتاب The Girl from Foreign: A Search for Shipwrecked Ancestors, Lost Loves, and a Sense of Home میں بھارت کی چھوٹی یہودی برادری اور اپنے خاندان کی تاریخ کے بارے میں بتاتی ہيں۔ سفر اور کتاب دونوں ہی کی وجہ سے انہیں بھارت کے یہودی، مسلمان اور ہندوؤں کے درمیان تعلقات کے بارے میں منفرد رائے قائم کرنے کا موقع ملا۔
سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائيٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کی جانب سے جاری ہونے والی ایک پوڈکاسٹ سیریز ہے، جو ایلزبتھ ایںڈ اولیور اسٹینٹن فاؤنڈیش کے تعاون کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ میں آپ کی میزبان ایلیسا فش مین ہوں۔ ہر دوسرے ہفتے، ہم اپنی دنیا میں سام دشمنی اور نفرت کے اثرات پر غور کرنے کے لئے مہمان مدعو کرتے ہيں۔ نیو یارک سے ہمارے ساتھ سعدیہ شیپرڈ موجود ہيں۔
سعدیہ شیپرڈ: میں ایک غیرمتوقع پیار کی داستان کے نتیجے میں بوسٹن میں بڑی ہوئی تھی۔ میری والدہ ثمینہ پاکستان کے شہر کراچی سے 1960 کی دہائی میں ایک غیر ملکی تبادلے کے پروگرام کے تحت اس ملک میں آئی تھیں، اور بعد میں وہ میرے امریکی عیسائی والد کے ساتھ گھر سے بھاگ گئيں۔ میرے والد کا تعلق کولوراڈو کے پہاڑی علاقے سے تھا۔ اور میں نیوٹن میساچوسیٹس میں بڑی ہوئی۔ میرا خاندان ان دو مختلف ثقافتوں کا امتزاج تھا۔ میری پرورش میں میری نانی کا بھی ہاتھ تھا، جنہيں میں نینا کہتی تھی۔ نینا 1975 میں میری پرورش میں مدد کرنے کے لئے پاکستان سے آ گئيں۔ جب میں 13 سال کی تھی، مجھے معلوم ہوا کہ نینا میری والدہ کے باقی تمام گھر والوں کی طرح نہ تو پاکستانی تھیں اور نہ ہی مسلمان۔ بلکہ وہ مشرقی بھارت میں بنی اسرائیل نامی ایک کمیونٹی سے تعلق رکھتی تھیں، جو یہودیوں کا بہت ہی چھوٹا گروہ تھا۔ مجھے سمجھ میں نہيں آیا کہ میری ساڑھی پہننے والی اور پاکستانی کھانا بنانے والی نانی ایک بھارتی یہودی تھیں۔ میں نے ان سے ان کی برادری کے بارے میں سوالات کرنا شروع کردئے۔ اور مجھے معلوم ہوا کہ ان کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا، جو مانتے تھے کہ ان کا جہاز 175 قبل مسیح میں بھارت کے مشرقی ساحل پر آ کر پھنس گیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ نئی زندگی کی تلاش میں بھارت آئے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ اسرائیل کے گم شدہ قبیلوں میں سے ایک تھے۔ یہ معلومات میرے لئے بہت نئی تھیں، اور اس نے میری زندگی کو حرکت میں لانا شروع کردیا۔
آج بھارت میں تقریبا 5000 یہودی رہتے ہيں۔ اور ان میں سے ہر ایک یہودی برادری کی ایک منفرد تاریخ ہے۔ لیکن ان کی وراثت میں ایک مشترکہ بات ہے: انہيں براعظم کی پوری تاریخ میں کبھی بھی سام دشمنی کا سامنا نہيں کرنا پڑا۔ انہيں اس بات پر بہت فخر ہے کہ دنیا میں ایک ایسا کونا ہے جہاں یہودی اور مسلمان ایک ساتھ بغیر لڑائی جھگڑے کے رہتے ہيں۔ میں نے 2001 میں ممبئی میں ماگن ڈیوڈ نامی یہودی عبادت گاہ کی کیئرٹیکر فلورا کا انٹرویو کیا تھا۔ اور اس نے بتایا کہ "مسلمان ہمیشہ ہمارے بہت اچھے دوست تھے۔ 1967 کی جنگ میں ہمیں ڈر لگتا تھا کہ اس علاقے میں فساد ہوگا کیونکہ مسلمان اکثریتی علاقے میں یہودیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس روز جب فساد کا ڈر تھا یہودی عبادت گاہ کے باہر مسلمان دکاندار ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر عبادت گاہ کے باہر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ خدا کا گھر ہے اور ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہئیے۔" مسلمان ہمیشہ ہمارے دوست ہيں اور دوست ہی رہیں گے۔" اور مجھے یہ کہانی سن کر بہت اچھا لگا۔
پچھلے موسم خزاں میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں تاج ہوٹل اور اوبروئے ہوٹل اور وکٹوریا ٹرمینس ٹرین اسٹیشن کے علاوہ حملہ ایک اور مقام پر بھی ہوا تھا۔ چیبڈ یہودی مرکز، جو ایک کمیونٹی مرکز تھا جہاں بھارت آنے والے یہودی نوجوان جمع ہوتے تھے۔ اب ہم ایک ایسے وقت میں پہنچ گئے ہیں جب مختلف برادریوں کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے ہیں۔ میرے خیال میں تہذیبوں کے تصادم کے حوالے سے آگے بڑھنے کے لئے ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ کوئی بھی مذہب، چاہے وہ یہودی مذہب ہو، اسلام ہو یا عیسائی مذہب ہو، یکساں نہيں ہیں۔ مذہب پر عمل کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ میری والدہ مسلمان تھیں، میرے والد عیسائی، میری نانی یہودی، اور مختلف عقائد ہیں، مختلف خیال ہيں۔ لیکن میرے تینوں والدین نے یکساں باتوں پر زور دیا۔ میرے کچھ کزن پاکستان میں ہیں، کچھ اسرائيل میں۔ میرے خاندان کے یہ دو حصے بعض باتوں پر متفق نہيں ہوتے ہيں۔ لیکن میرے والدین کی شادی کی وجہ سے ایک ساتھ بندھے ہوئے ہيں اور سرخیوں کی دوسری طرف انسانی پہلو پر نظر ڈالنے پر مجبور ہيں۔ اور میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھے یہ موقع ملا۔