امام محمد ماجد نے سام دشمنی اور ہولوکاسٹ کے انکار کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوسرے مسلمان راہنماؤں کیلئے بھی یہ ماننا بہت ضروری ہے۔
Transcript
امام محمد ماجد:
میں یہ سمجھتا ہوں کہ مزید لوگوں تک پیغام پہنچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ اماموں کو سام دشمنی کے خلاف آواز اٹھانی پڑے گی۔ امام کو مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا ہر لفظ وزن رکھتا ہے۔
الیسا فشمین:
امام محمد ماجد کی پیدائش سوڈان میں ہوئی، ان کے والد ایک نمایاں اسلامی عالم تھے، اور اب وہ سٹرلنگ، ورجینیا، میں واقع All آل ڈلس ایری مسلم سوسائیٹی یعنی ایڈمز سنٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ امام ماجد اور ان کی مسجد کا قریب ہی واقع شمالی ورجینیا یہودی اجتماع کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اور ہر جمعہ کو وہ یہودی عبادت گاہ کو جمعہ کی نماز کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ امام ماجد سام دشمنی کے خلاف ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے مسلمان راہنماؤں کے لئے بھی ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ امام ماجد نے حال ہی میں اپنے آشوٹز کے دورے کے دوران، دوسرے اماموں کو وزٹر کی کتاب میں عربی میں دستخط کرنے کا مشورہ دیا۔
سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز ہے جو اولیور اور الیزابیتھ اسٹینٹن فاؤنڈیشن کی بھرپور حمایت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ میں الیسا فشمین ہوں۔ ہر مہینے ،ہم ایک مہمان کو دعوت دیتے ہیں جو اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ سام دشمنی اورنفرت کس طرح ہماری دنیا کو متاثر کرتے ہيں۔ ہم شمالی امریکہ کے اسلامی سوسائیٹی کے صدر امام محمد ماجد سے بات کررہے ہیں۔
امام محمد ماجد:
میں یہودیوں کو دوستی کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ جب میں امریکہ آیا تو میں اپنے والد کے ساتھ آیا، جو گردے کی خرابی کے شکار تھے، اور میں اپنا گردہ انہیں عطیہ دینے والا تھا۔ ان کے گردے کا ڈاکٹر ایک یہودی تھا۔ ان کی میرے والد صاحب سے گہری دوستی ہوگئی۔ ان کے سرجن کا تعلق مصر سے تھا۔ اور انہیں مجھ میں اپنا ہم مذہب نظر آیا۔ جب 1990 میں ان کا انتقال ہوگیا تو دونوں ڈاکٹر مجھے دلاسہ دینے لگے۔ اور یہ میرے لئے ذاتی بات بن گئی۔ آپ خود سے پوچھنے لگتے ہیں کہ لوگ سام دشمنی کی اجازت کیوں دیتے ہیں؟ کوئی مسلمان کسی گروہ کے خلاف نفرت کا جواز کیسے دے سکتا ہے؟
میرا امریکہ میں امامت کرنے کا ارادہ نہیں تھا، لیکن ایسا ہوگیا۔ مجھے احساس ہوگیا ہے کہ امریکہ میں امام کا کردار نماز پڑھانے تک محدود نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ امام کئی ذمہ داریاں پوری کرتا ہے، جن میں سرکاری افسران سے بات کرنا، بین المذاہب امور، اور اپنے رفقاء کار سے رابطہ کرنا۔ یہ بہت دلچسپ بات ہے، امریکہ میں آپ کے رفقاء کار امام نہیں ہیں، آپ کی قریب ترین مسجد 30 منٹ کے فاصلے پر ہوگی۔ مجھ سے قریب یہودی عبادت گاہ اور گرجا گھر ہے۔ میرے رفقاء کار راہب اور لوتھرن پیسٹر ہیں۔ میں ان سے بات کرتا ہوں، کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مسائل کے بارے میں بات کرتا ہوں۔ امام کی حیثیت سے آپ لوگوں کی شادیوں میں فرائض ادا کرتے ہیں۔ جب کسی کے گھر بچہ پیدا ہوتا ہے، آپ وہاں جاتے ہیں۔ میں اپنے سامنے دم توڑنے والے کا ہاتھ پکڑ نا ہو گا۔ مجھے یہ جان کر بہت اچھا لگتا ہے کہ لوگ مجھ پر اتنا بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ مجھے اپنی روحانی اور ذاتی زندگی میں شامل کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ میرے لئے بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔
میں سام دشمنی کے سخت خلاف ہوں۔ اور چند افراد جو اپنے آپ کو مسلمانوں کے راہنما کہتے ہیں، وہ ہولوکاسٹ سے انکار کرتے ہیں، جو میرے نزدیک سام دشمنی کی سب سے نمایاں علامات میں سے ایک ہے، اور یہ بالکل ناقابل قبول ہے۔ اس لئے جب بھی کوئی انٹرنیٹ پر اپنے آپ کو مبلغ یا استاد کہہ کر نفرت، تعصب یا سام دشمنی کا سبق پڑھاتے ہیں، مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ پادری لوگوں کی روحوں کے لئے ذمہ دار ہیں۔ اور انہیں غلط تعلیمات دینا، انہیں ایسی باتیں سکھانا جو کسی بھی مذہب کے اصولوں، یعنی کہ احترام، افہام و تفہیم، ہمدردی اور رحم دلی کے خلاف ہو، یہ واقعی آپ کے اپنے مذہب کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔
میں دوسرے اماموں اور مسلمانوں کی کمیونٹیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ پہلے واشنگٹن ڈی سی میں واقع ہولوکاسٹ میوزیم جائيں، اور وہاں سبق سیکھیں، اور اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی لے جائيں۔ اور جو میں نے کیا، وہ بھی کریں - پولینڈ جائيں، جرمنی جائيں اور حراستی کیمپ دیکھیں۔ وہاں جائيں جہاں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اپنی آنکھوں سے راکھ کو دیکھیں۔ ان بچوں کے کپڑے دیکھیں جنہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ آپ کو بالوں کے ڈھیر نظر آئيں گے، جوتے نظر آئیں گے۔ یہ حقیقی ہے۔ جب آپ اس جگہ پر ہوں گے، آپ کو تبدیلی محسوس ہوگی، آپ کو بدکاری کے اثرات نظر آئيں گے اور معلوم ہوگا کہ جب لوگ خاموش رہتے ہیں تو یہ بدکاری کس حد تک جاسکتی ہے۔ اس لئے میں نے سام دشمنی کی مخالفت کرنے کا عہد کرلیا۔ میں نے خود کو اس مقصد کے لئے وقف کرلیا۔ مسلمان کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چند افراد مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں واقعی اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنا چاہتا ہوں؟ اگر کسی نے کچھ کرلیا تو؟ اور میں نے کہا کہ کبھی کبھی تبدیلی لانے کے لئے خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔
جب بھی آپ کوئی موقف اپناتے ہیں، لوگ آپ کے خلاف ویب سائٹ بناتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا ایمان فروخت کردیا ہے اور کچھ کہتے ہیں آپ سچے مسلمان نہیں ہیں۔ ہم خفیہ طور پر یہودی ہیں یا کچھ اسی طرح کی بات کرتے ہیں۔ لیکن آپ کو اپنے موقف پر قائم رہنا چاہئیے کیونکہ تاریخ ان لوگوں کا ساتھ نہیں دیتی جو ظلم دیکھ کر خاموش رہتے ہیں