ریاستہائے متحدہ امریکہ میں یہودی تاریخ اور ہینا روزنتھل کے اپنے تجربات نے اُن کیلئے ثابت کر دیا کہ دنیا بھر میں تبدیلی لانے کے لئے اتحاد قائم کرنا بہت ضروری ہے۔
Transcript
ٹرانسکرپٹ:
ہینا روزینتھل جب میں دوسروں کے خلاف نفرت کے واقعات دیکھتی ہوں تو میں یہ رویہ اپنانے کی کوشش کرتی ہوں کہ میں اس اقدام کے خلاف بات کروں۔ اور جب میں یہودیوں کے خلاف نفرت کا اظہار دیکھتی ہوں تو میں دوسروں سے بھی یہی کہتی ہوں کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کریں۔ کیونکہ یہی صحیح ہے اور روشن خیال ذاتی مفاد کا تقاضا بھی۔
ایلیسا فشمین: 2009 میں، ہینا روزینتھل کو سام دشمنی کی نگرانی اور اس کی روک تھام کیلئے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی خصوصی سفیر متعین کیا گيا تھا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں یہودی تاریخ اور ان کے اپنے تجربات نے روزینتھل کے اس یقین کو پختہ کر دیا کہ دنیا بھر میں تبدیلی لانے کے لئے اتحاد قائم کرنا بہت ضروری ہے۔
سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ھولوکاسٹ میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی یہ پوڈ کاسٹ سیریز الیزابیتھ اور جو اولیور اسٹینٹن فاؤنڈیشن کے بھرپور تعاون کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ میں ایلیسا فشمین ہوں۔ ہر مہینے ہم ان مختلف طریقوں پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک مہمان کو دعوت دیتے ہیں جن کے ذریعے سام دشمنی اورنفرت ہماری دنیا کو متاثر کرتے ہيں۔ واشنگٹن ڈی سی میں واقع اپنے دفتر سے یہ ہیں ہینا روزینتھل۔
ہینا روزینتھل میں یہاں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں اپنا کام اس طرح کرنے کی کوشش کرتی ہوں کہ میں دنیا میں پیش آنے والے واقعات کا ریکارڈ اکٹھا کروں؛ میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہوں کہ ہمارے سرکاری رپورٹنگ کے نظاموں میں سام دشمنی کے واقعات کا تذکرہ ہو۔ لیکن اگر میرے نام "ہینا روزینتھل" سے کوئی شخص سام دشمنی کی مذمت کرے تو یہ کوئی اہم خیز خبر نہيں بنتی ہے؛ بلکہ اس سے الٹا بوریت ہی ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی روایتی عرب نام رکھنے والا شخص سام دشمنی کی مذمت کرے، تو اس سے زیادہ اثر پڑتا ہے، اس سے بالکل ہی مختلف تاثر پیدا ہوتا ہے، اور وہ واقعی ایک خبر ہوتی ہے: اس کا تعلق صرف یہودیوں ہی سے نہيں ہے، اس کا تعلق نفرت سے ہے، جس کی وجہ سے ہر کوئی ہی متاثر ہوتا ہے۔
کیا میرے لئے دوسروں کو سام دشمنی کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کرنا مشکل ہے؟ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں یہ کوئی مشکل بات نہيں ہے۔ امریکی یہودیوں کو یہاں جو کامیابی، تحفظ اور سلامتی ملی ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمیں اتحاد قائم کرنا معلوم ہے، اور ہمارے مذہب کی وجہ سے ہم مختلف مسائل میں سماجی انصاف کے لئے کوشاں رہ چکے ہيں۔ ہمارے ہاں شہری حقوق کی تحریک بھی زوردار طریقے سے جاری رہی اور خود مارٹن لوتھر کنگ نے بھی سام دشمنی کے خلاف آواز اُٹھائی تھی۔ اس لئے آج جب کوئی بھی برا واقعہ پیش آئے یا غیرمہذب زبان کا استعمال ہو، تو کسی مذہبی رہنما یا شہری حقوق کے رہنما یا انسانی حقوق کے رہنما سے اس کے خلاف آواز اٹھانے کی درخواست کرنا مشکل نہيں ہوتا ہے۔ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ لیکن میں نے یہ دیکھا ہے کہ دنیا کے دوسرے حصوں میں یہ ثقافت کا حصہ نہيں ہے۔ مثال کے طور پر لیتھوینیا کی یہودی برادری نازیوں کی طرف سے ضبط کی جانے والی مشترکہ جائداد کے لئے تلافی کا بل پاس کروانے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ بہت تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے، میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے اس بل کی حمایت کے لئے کارڈینل سے بات کی؟ ان کو اس بات کا خیال ہی نہيں آیا۔ اور مجھے یہ ہر جگہ نظر آیا۔ اس لئے میرے خیال میں امریکہ کی سب سے اہم برآمد یہاں نفرت کے خلاف دوسروں کے ساتھ تعاون کرکے ان کے ساتھ کام کرنا ہے۔
اگست 2010 میں قزاقستان میں یورپ کی سلامتی اور تعاون کی تنظیم نے برداشت کے موضوع پر کانفرنس منعقد کی تھی۔ پہلے سیشن میں اسلام دشمنی کے متعلق بات ہونی تھی، دوسرے میں سام دشمنی پر، تیسری میں عیسائیوں کے خلاف دشمنی پر، اور چوتھی میں باقی تمام موضوعات پر۔ میں نے سام دشمنی کے خلاف سرکاری امریکی بیان لکھا، اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں میری رفیق کار فرح پنڈٹ، جو دنیا بھر میں مسلم برادریوں کی خصوصی نمائندہ ہے، اسلام دشمنی کے خلاف سرکاری بیان لکھا۔ اور ایک رات پہلے، ہم نے اپنے اپنے بیانات کا تبادلہ کر لیا۔ جب امریکہ کی باری آئی، میں نے اپنا تعارف سام دشمنی کی نگرانی اور مقابلے کیلئے خصوصی سفارتی نمائیندہ کے طور پر کیا، اور میں نے اسلام دشمنی کی سختی سے مذمت کی۔ اگلے سیشن میں فرح نے سام دشمنی کے خلاف بھی یہی کیا۔ ہمارے ایسا کرنے سے ہم نے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ پیغام ہی اہم نہيں ہوتا ہے، بلکہ پیغام رساں بھی بعض اوقات اہم ہوتا ہے، اس کی وجہ سے کافی ہلچل ہوئی اور ہر کسی کو یہ یاد رہا ہوگا۔ وہاں کئی نوجوان تھے، اور انہیں بہت دلچسپی تو ہوئی، لیکن انہوں نے ہمیں چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ "بات کرنا اور بیان دینا تو بہت آسان ہے، لیکن ہمیں اس کے ساتھ ساتھ کچھ کرنا بھی چاہئیے"۔ لہذا ہم نے انٹرنیٹ پر ایک بھرپور مہم چلانے کا فیصلہ کیا جس کا نام "نفرت کے خلاف 2011 گھنٹے" رکھا گیا۔ اور چیلنج یہ ہے کہ، آپ نفرت کا مقابلہ کرنے کے لئے کتنے گھنٹے وقف کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، آپ کسی ایسی تنظیم میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے کا عہد کرتے ہیں جو ایسے لوگوں کے لئے کام کرتی ہے جو آپ کی طرح دکھائی نہيں دیتے، جو آپ کے انداز میں عبادت نہيں کرتے یا اپنی زندگی آپ کی طرح نہيں گزارتے؟ اور یہ مہم جنگل کی آگ کی طرح بڑھتی چلی گئی۔ ہم آزربائیجان گئے، ہم ترکی گئی، ہم اسپین گئے؛ ہم دنیا بھر کے لوگوں سے بات کرتے ہيں۔ اب تک ہمیں کوئی ایسا نوجوان نہيں ملا جس نے یہ نہ کہا ہو کہ "شکریہ۔ میں بھی یہ کرسکتا ہوں"۔
میرے لئے سام دشمنی اور نفرت کی دوسری اشکال کا مقابلہ کرنا ایک قدرتی بات ہے۔ میرے والد ہولوکاسٹ میں بچ گئے تھے اور جب میں نے ان سے پوچھا "آپ زندہ کیسے بچ گئے؟ آپ کو اپنے خاندان میں زندہ بچنے والے واحد شخص ہونے پر رنج نہيں ہوتا؟" انہوں نے کہا "ہینا، میں تمہیں اور تمہاری بہن کو اس دنیا میں لانے کے لئے زندہ بچ گیا۔" اس وجہ سے میں مساوات کی جنگ، شہری حقوق کی جنگ، نفرت کے خلاف جنگ پورے جذبے کے ساتھ لڑتی ہوں، جو ميں نے صرف اپنے والدین ہی سے سیکھا۔ میں اسی چیز کی وجہ سے آگے بڑھتی ہوں۔ میرے بچے بڑے ہوگئے ہیں اور مجھ سے میری ملازمت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ کیا آپ اس کے جاری رہنے کی وجہ سے رنجیدہ نہيں ہوتی ہيں؟ اور میں ان سے کہتی ہوں کہ مجھے رنج نہيں ہوتا کیونکہ میں اس کے خلاف کچھ کرسکتی ہوں۔"