ایبو پٹیل کا اصرار ہے کہ نوجوان افراد کے لئے صرف یہ کافی نہیں کہ وہ پرانی نسلوں کی نفرت کو بھول جائیں۔ پٹیل کو اُمید ہے کہ اپنی کمیونٹیز کی خدمت کے لئے اُنہیں متحد کرتے ہوئے وہ بڑے پیمانے پر مذہبی افہام و تفہیم کے خالق بن سکیں گے۔
Transcript
میرا خیال ہےکہ کثرت پسندی ہمارے دور کے سب سے اہم نظریات میں سے ایک ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی میں کئی طریقوں سے کثرت پسندی اور مطلق العنانیت کے درمیان جنگ رہے گی۔ یہ جنگ صرف ایک نظرئیے کی بنیاد پر ہو گی کہ ایک طرف وہ واحد ذات ہے جو جائز انداز میں اعتقاد کی امین ہے اور دوسری طرف زمین پر بسنے والے لوگ ہیں۔ اِن کے علاوہ ہر دوسرا راستہ تباہ کر دیا جانا چاہئیے۔ یہ تصور مطلق العنانیت ہے اور کثرت پسندی کا تصور جس میں لوگ مختلف برادریوں سے جڑے ہوتے ہیں اور مختلف روایات میں یقین رکھتے ہیں۔ اُنہیں امن اور وفاداری کی فضا میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا۔ اور میرے خیال میں نوجوان لوگ کثرت پسندی اور مطلق العنانیت کے درمیان بدلتی ہوئی دنیا کے لئے واحد سب سے اہم عنصر ہیں۔ با الفاظ، دیگر نوجوان لوگ جس طرح کے ہیں اُن کے ذریعے ہی یہ طے ہوگا کہ کیا کثرت پسندی یہ طے کرے گی کہ اکیسویں صدی کیسی ہونی چاہئیے یا پھر یہ کام مطلق العنانیت کے ذریعے طے کیا جائے گا۔
ڈینیل گرین:
1998 میں ایبو پٹیل نے ایک تحریک کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مختلف مذاہب کے نوجوانوں کو اکٹھا کرنا ہے تاکہ وہ اپنی اپنی برادریوں کی خدمت کر سکیں۔ پٹیل کا اصرار ہے کہ نوجوان لوگوں کے لئے محض یہ ہی کافی نہیں ہے کہ وہ پرانی نسلوں کی نفرتوں کو بھول جائیں۔ پٹیل کو اُمید ہے کہ ایک ساتھ کام کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کو جانتے اور احترام کرتے ہوئے یہ نوجوان وسیع تر مذہبی افہام و تفہیم کے خالق بن جائیں گے۔
میں آپ کو"سام دشمنی کے خلاف آوازیں" یعنی "Voices on Antisemitism" میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم کی مُفت پاڈ کاسٹ سیریز کا ایک حصہ ہے۔ میں ڈینیل گرین ہوں۔ ہم ہر دوسرے ہفتے آج کی دنیا پر مختلف حوالوں سے سام دشمنی اور نفرت کے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے ایک مہمان کو مدعو کرتے ہیں۔ آج کے مہمان ہیں انٹر فیتھ یوتھ کور کے ایبو پٹیل۔
ایبو پٹیل:
ہر مطلق العنان تحریک کا مرکزی کردار نوجوان لوگ ہوتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ اِس بات کی وجہ موجود ہے کہ ایڈولف ہٹلر نے نازی جرمنی میں اپنے نوجوانی دور کا آغاز کیا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے بدشکل مطلق العنان نظرئیے میں نوجوان افراد کو شامل کرنے کی اہمیت سمجھ گیا تھا۔ لیکن ہم جو کچھ ذیادہ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ ہر طاقتور کثرت پسند تحریک کا مرکز بھی نوجوان ہی رہے ہیں اور مجھے یہ سوچتے ہوئے جھرجھری سی آتی ہے کہ 1955 میں مانٹگمری الاباما میں جس شخص نے شہری حقوق کی مہم کا آغاز کیا اُس کی عمر صرف 26 برس تھی اور جنوبی افریقہ میں بیسویں صدی کی ابتدا میں جو شخص نسلی تعصب پر مبنی قوانین کے خلاف بر سرِ پیکار تھا دراصل ایک طرح سے وہ نیلسن منڈیلا کی فاؤنڈیشن افریقن نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھ رہا تھا۔ وہ کنگ سے بھی کم عمر تھا۔ اُس کی عمر 24 برس تھی اور وہ مہاتما گاندھی تھا جو بلاشبہ بیسویں صدی میں بھارت کو آزادی دلانے کی خاطر اپنے عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کرنے والے تھا۔ پھر 1950 کی دہائی میں جس شخص نے مقبوضہ تبت سے اپنے لوگوں کی وقار اور سکون کے ساتھ قیادت کرتے ہوئے اُنہیں بھارت لے آیا وہ بھی بیس سال سے کم عمر نوجوان تھا۔ یہ نوجوان عزت مآب دلائی لامہ تھے۔
مجھے حیرت ہے کہ یہ تمام تحریکیں کثیر مذہبی پہلو اور کثیر مذہبی مقصد لئے ہوئے تھیں اور اِن تمام کی قیادت نوجوان افراد نے ہی کی تھی۔
اب ایک سوال یہ ہے کہ کیا ایسی مذہبی قوتیں بھی ہیں جو لوگوں کو تقسیم کرتی ہیں اُن مذہبی قوتوں کے مقابلے میں جو متحد کرتی ہیں۔ اور پھر اِن دونوں میں سے کون سی قوتیں زیادہ مضبوط ہیں۔ یہ قوتیں خود لوگ ہی ہیں۔ افراد تقسیم کرتے ہیں اور افراد ہی متحد کرتے ہیں اور ہمارے درمیان تقسیم کرنے والے طاقتور لوگ موجود ہیں۔ ہمارے سامنے ایسے لوگ ہیں جو افراد کو تقسیم کرنے کا بیج بونے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور ایسے لوگ ہر مذہب میں موجود ہیں۔ آج جو سوال ہمیں پوچھنا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ آیا ایک دھندلی یا تجریدی شے جسے ہم مذہب کہتے ہیں فطری طور پر افراد کو منقسم کرتی ہے یا پھر قدرتی انداز میں متحد کرتی ہے۔ مذہب کچھ نہیں کرتا۔ مذہبی لوگ خود مذہب کے ساتھ ذیادتی کرتے رہتے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ مذہبی روایات میں ایسے غیر معمولی وسائل موجود ہوتے ہیں جو لوگوں کو متحد کرتے ہیں اور یہی وہ تحریک ہے جس کا میں حصہ بننے کے لئے کوشاں ہوں۔
یہ ایک بدقسمت حقیقت ہے کہ آج مسلمان برادری کا ایک طبقہ ایسا ہے جو سام دشمنی کی ایک شکل سے متاثر ہے۔ یہ انتہائی خراب بات ہے اور مجھے اِس سے نفرت ہے لیکن یہ حقیقت ہے۔ مگر جس چیز سے میری حوصلہ افزائی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ممتاز مسلمان عالم اور راہنما اِس کا بڑی ہمت سے مقابلہ کر رہے ہیں اور کہ رہے ہیں کہ یہ غیر اسلامی ہے۔ لیکن یہ سب سے ذیادہ غیر اسلامی چیز ہے جو آپ کر سکتے ہیں یعنی دوسرے لوگوں سے نفرت کرنا یا پھر دوسرے لوگوں کے مذہب کے بارے میں کسی سیاسی تنازعے کی بنا پر برا سوچنا غیر اسلامی ہے کیونکہ ہمارے پیغمبر ، اُن پر خدا کی رحمت نازل ہو، نے ایسا کبھی نہیں کیا۔
لیکن بعض افراد کی طرف سے سام دشمن مسلمانوں کے کسی محدود گروپ کولے کر تمام دنیائے اسلام کو ایک ہی نظر سے دیکھنے کا رجحان اور پھر اِس سے بھی آگے جا کر موجودہ دور کی سام دشمنی کو تاریخ یا اسلام کے بنیادی ذرائع کا حصہ بنا کر پیش کرنا میرے لئے بے حد اشتعال انگیزبات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بے انتہا غیر تعمیری اور منفی ہے۔ میرا مطلب ہے کہ ایسا کہنے کا فائدہ کس کو ہو گا کہ ایک ارب چالیس کروڑ افراد بنیادی طور پر نفرت کرنے والے ہیں۔ اگر آپ ایک ارب چالیس کروڑ افراد پر نفرت کرنے کا لیبل لگا دیں گے تو آپ کیا کریں گے۔ کیا اُنہیں کیمپوں میں رکھیں گے؟ غائب کردیں گے؟ اُن کا مذہب تبدیل کر دیں گے؟ میرا مطلب ہے کہ عملی طور پر انسانیت کے پانچویں حصے کو ایسا لیبل لگانے کے لئے سخت محنت کرنا احمقانہ بات ہےکہ یہ حصہ پوری انسانیت کا مخالف ہے۔ اِس میں جیت کس کی ہو گی؟