جب ہالوکاسٹ سے انکار کرنے والے ڈیوڈ ارونگ نے ایک برطانوی عدالت میں ڈیبرا لپسٹڈ کے خلاف ہتکِ عزت کا دعوٰی کیا تو ڈیبرا نے اُس کیفیت کا تجربہ کیا جسے وہ خود سام دشمنی کے بارے میں محض پڑھنے اور قریبی اور ذاتی سطح پر پرکھنے میں فرق سے تعبیر کرتی ہی
Transcript
ڈیبرا لپسٹڈ: ہالوکاسٹ سے انکار دراصل سام دشمنی ہی کی ایک قسم ہے۔ یہ سام دشمنی کے علاوہ اور کچھ نہیں کیونکہ اگر آپ اِس کے بارے میں سوچیں توہالوکاسٹ کو یہ مبہم امتیاز حاصل ہے کہ یہ انسانی تاریخ میں قتلِ عام کو بیترین انداز میں قلمبند کرنے والی دستاویز ہے۔ لہذا آپ کو تمام حوالوں سے اِس قدر زیادہ شہادتیں میسر ہیں کہ پھر آپ کو یہ پوچھنا پڑتا ہے کہ اگر یہ تمام ثبوت موجود ہیں تو پھر یہ افراد اِس سے انکار کیسے کرتے ہیں۔ اِس میں ایسی کیا بات ہے جس سے وہ انکار کرتے ہیں۔ ہالوکاسٹ سے انکار کی واحد وجہ سام دشمنی کی بنیاد ڈالنا اور اسے فروغ دینا ہے۔
ڈینیل گرین: ڈیبرا لپسٹڈ نے جب ہالوکاسٹ سے انکار کی تاریخ مرتب کی تو انہیں عملی سے زیادہ نظریاتی طور پر سام دشمنی کا سامنا ہوا۔ لیکن جب ہالوکاسٹ سے انکار کرنے والے ڈیوڈ ارونگ نے ایک برطانوی عدالت میں ڈیبرا لپسٹڈ کے خلاف ہتکِ عزت کا دعوٰی کیا تو اُنہوں نے اُس کیفیت کا تجربہ کیا جسے وہ خود سام دشمنی کے بارے میں محض پڑھنے اور قریبی اور ذاتی سطح پر سننے اور پرکھنے میں فرق سے تعبیر کرتی ہیں۔ تین ماہ تک جاری رہنے والے اِس مقدمے نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی۔ مقدمے نے لپسٹڈ کو مدعا علیہ اور گواہ کے کردار کی طرف دھکیل دیا جس سے ہالوکاسٹ سے انکار کے حوالے سے نئے شواہد سامنے آئے۔
میں آپ کو"سام دشمنی کے خلاف آوازیں" یعنی "Voices on Antisemitism" میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم کی مُفت پاڈ کاسٹ سیریز کا ایک حصہ ہے۔ میں ڈینیل گرین ہوں۔ ہم ہر دوسرے ہفتے آج کی دنیا پر مختلف حوالوں سے سام دشمنی اور نفرت کے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے ایک مہمان کو مدعو کرتے ہیں۔ آج کی مہمان ہیں مؤرخ ڈیبرا لپسٹڈ۔
ڈیبرا لپسٹڈ: 1993 میں میری ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام تھا : Denying the Holocaust: The Growing Assault on Truth and Memory یعنی "ہالوکاسٹ سے انکار: سچائی اور یادوں پر بڑھتا ہوا حملہ"۔ اِس کتاب میں میں نے شاید ایک مکمل صفحہ ڈیوڈ ارونگ نامی ایک شخص کے لئے مختص کر دیا جو تاریخی کتب کے مصنف ہیں اور برطانوی شہری ہیں۔ وہ 1988 سے ہالوکاسٹ سے کھلم کھلا انکار کرتے آئے ہیں کہ ہالوکاسٹ محض ایک قصہ کہانی تھا اور اُنہوں نے ایسے ثبوت دیکھ لئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا کبھی ہوا ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ لہذا جب میں نے کہا کہ یہ شخص ہالوکاسٹ سے منکر ہے تو میں نے کوئی اشتعال انگیز بات نہیں کی۔ جب میری کتاب منظرِ عام پر آئی تو اُنہوں نے انگلینڈ میں مجھ پر ہتکَ عزت کا دعوٰی کر دیا۔ میں مدعا سلیہ تھی۔ میں نے اُن پر مقدمہ نہیں کیا تھا۔ بحر حال یہ چونکہ ایک برطانوی کیس تھا مجھے اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لہذا اگر میں اِس کیس کو نظر انداز کر دیتی تو وہ میری غیر موجودگی میں خود بخود یہ مقدمہ جیت جاتے۔ پھر وہ کہتے کہ ہالوکاسٹ کے بارے میں خود اُن کا نظریہ ہی حقیقی اور سچا ہے۔
مقدمے کی سماعت 12 ہفتے تک چلی اور آخر میں ہم نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ جج کو معلوم ہوا کہ ڈیوڈ ارونگ نے ہالوکاسٹ کے بارے میں جو دعوے کئے ہیں اُن میں سے ہر دعوٰی غلط ہے۔ جج نے اِس سلسلے میں تضحیک، گمراہ کن، جھوٹ، بے بنیاد اور بلا جواز کے الفاظ استعمال کئے۔ یہ واقعتاً ہالوکاسٹ سے انکار کے لئے ایک تباہ کن دھچکہ تھا جس سے اِس بات کا اظہار ہوا کہ یہ معاملہ رائے کا نہیں۔ یہ معاملہ دو فریقوں کا نہیں بلکہ اُن لوگوں کا معاملہ ہے جو تاریخ کے بارے میں صراصر جھوٹ کہتے ہیں۔
مجھے کسی حد تک اُن افراد کی تاریخ کا دفاع کرنے کا اعزاز حاصل ہے جنہوں نے بے حد تکلیفیں اُٹھائیں اور بعض اوقات تو اُن کی انتہائی تکلیف دہ صورتِ حال کو اجاگر کیا یعنی جب جرمنوں اور اُن کے اتحادیوں کے ہاتھوں اُنہوں نے جانیں گنوا دیں اور جیسا کہ ڈیوڈ ارونگ نے ایک موقع پر نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ اُنہوں نے مجھے ختم کرنے کے لئے الگ کر لیا تھا اور میں نے کہا کہ اگر کسی کو یہ کام کرنا ہی ہے تو پھر اپنے انتخاب پر میں شکرگزار ہوں۔
لوگ خاموشی سے بیٹھے رہ سکتے ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں وہ یہ کہ سکتے ہیں کہ اُن کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ میرے بیل کے ساتھ سینگ زنی نہیں ہو رہی اس لئے مجھے جواب دینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اِس طرح کے شر کے سامنے کوئی غیر جانبداری نہیں ہے۔ غیر جانبداری کا دعوٰی کرنا دراصل شر اور برائی میں شامل ہونے کے مترادف ہے۔ لہذا اگر آپ سازشیوں کی مدد کرنے کے حوالے سے ریکارڈ پر آنا چاہتے ہیں تو پھر آپ خاموش کھڑے رہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ایک ایسے شخص کی حیثیت سے ریکارڈ پر آنا چاہتے ہیں جو برائی کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور جس کی وجہ سے حالات میں بڑی بہتری واقع ہوتی ہے تو پھر میں سمجھتی ہوں کہ تعصب کا مقابلہ ضرور ہونا چاہئیے۔ اِنہی تعصبات کے درمیان کہیں سام دشمنی بھی ہے جس کا ہمیں مقابلہ کرنا ہی پڑے گا۔