Start of Main Content

کولبرٹ آئی کنگ

پلٹزر پرائز جیتنے والے کالم نگار کولبرٹ کنگ کھرے اور سیدھے تجزیوں کے لئے مشہور ہيں۔ اپنے ایک حالیہ کالم میں کنگ نے ایران میں ریاست کے تعاون کے ساتھ ہونے والی سام دشمنی کے خلاف، بقول اُن کے "ہلکے" بین الاقوامی رد عمل پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

Transcript

کولبرٹ آئی کنگ: نسل پرستی کو غلط کہنے کی خاطر میرے لئے سیاہ فام ہونا کیوں ضروری ہے؟ سام دشمنی سے نفرت کرنے کی غرض سے میرے لئے یہودی ہونا کیوں ضروری ہے؟ آپ کیا بات کررہے ہيں؟ یہ امتیازی سلوک ہے۔

ایلیسا فش مین: پلٹزر پرائز جیتنے والے کالم نگار کولبرٹ کنگ کھرے اور سیدھے تجزیوں کے لئے مشہور ہيں۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایک حالیہ کالم میں کنگ نے ایران میں ریاست کے تعاون کے ساتھ ہونے والی سام دشمنی کے خلاف بقول اُن کے "ہلکے" بین الاقوامی رد عمل پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔  

سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائيٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کی جانب سے جاری ہونے والی ایک پوڈکاسٹ سیریز ہے، جو الیزبیتھ ایںڈ اولیور اسٹینٹن فاؤنڈیش کے تعاون کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ میرا نام الیسا فش مین ہے۔ ہر مہینے ہم اپنی دنیا میں سام دشمنی اور نفرت کے اثرات پر غور کرنے کے لئے مہمان مدعو کرتے ہيں۔ واشنگٹن ڈی سی سے آج ہمارے ساتھ کولبرٹ کنگ موجود ہيں۔

کولبرٹ آئی کنگ: میری زندگی میں، آپ کو معلوم ہوگا کہ میں دوسری جنگ عظیم کے وقت چھوٹا تھا اور مجھے بڑے ہو کر معلوم ہوا کہ کیا ہوا ہے، لیکن اب میں اپنے سامنے ایک ایسی ایرانی حکومت دیکھ رہا ہوں جو واضح طور پر اسرائیل کو دنیا سے نیست و نابود کرنے پر کمربستہ ہے۔ یہ محض ایک حکومت کی دوسری حکومت کی جانب، یا ایک ملک کی دوسرے ملک کی جانب دشمنی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ خارجہ پالیسی کے نظریے سے اس پر بات کرسکتے تھے، لیکن یہ کچھ اور ہی مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسی حکومت ہے جو لوگوں کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اور دنیا کو اس کا اعتراف کرنا ضروری ہے۔ یہ مختلف مسئلہ ہے اور آپ اس کا جواب سفارتی الفاظ میں نہيں دیتے ہيں، اور نہ ہی ایسے غیرواضح الفاظ میں دیتے ہيں کہ کسی کو سمجھ ہی نہ آسکے کہ آپ کو یہ کتنا برا لگتا ہے۔ آپ کو اس کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنی ہوگی۔ اس لئے میں اس کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں اور لکھنا چاہتا ہوں۔

 میں واشنگٹن پوسٹ میں یہ کہتا ہوں کہ نازی جرمنی کے بعد ریاست کی حمایت حاصل کرنے والی سام دشمنی میں ایران سب سے آگے ہے۔ لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ "میں غلاموں کی نسل سے تعلق رکھنے والے شخص کی حیثیت سے ایسا کہہ رہا ہوں، جس کے والدین نسل پرستی کی وجہ سے آگے نہيں بڑھ پائے۔ اور میں ایک ایسا آدمی ہوں جس کی جوانی جم کرو اور نسلی تعصب کی وجہ سے پروان نہ چڑھ سکی۔" ایک ایڈیٹر میرے پاس آئے اور کہنے لگے " اس کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بیچ میں کہاں سے آ گیا؟" میں نے کہا، "میں یہ شامل رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ لکھنے والا شخص یہودی نہيں ہے، لیکن وہ نفرت کا نشانہ بن چکا ہے۔" کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں نہ صرف اپنے مسائل سے واقف ہوں، بلکہ دوسروں کے مسائل سے بھی واقف ہوں، اور یہ سیاسی یا خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہيں ہے۔ یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسی حکومت ہے جو ایک قوم کی تباہی پر تلی ہوئی ہے، اور اب ہم کیا کرنے والے ہیں؟