رضا اثلان مغرب اور بنیاد پرست اسلام پرستی کے درمیان "عالمی کائناتی تصادم" کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔
Transcript
رضا اثلان: میرے خیال میں اس تمام تر شور شرابے کے درمیان اس سوال کے بارے میں کہ "یہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟" ہم نے آج تک یہ نہیں پوچھا کہ "وہ ہیں کون؟"
اس کی ایک وجہ دہشت گردی کی جنگ کا استعارہ ہے۔ بنیادی طور پر ہم نے ایک نظریاتی تحریک چلائی ہے جس میں ہم نے واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ یا تو تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے ساتھ۔
میرا مطلب ہے کہ اب یہ مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کہ ہم نے ایک ایسا دشمن بنالیا ہے جس میں فرق نہیں کیا جا سکتا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کئی مختلف گروپ ہیں جن کے نظریات اور ایجنڈوں میں بہت فرق ہے بلکہ ان کے ایجنڈے میں آپس میں اختلاف بھی ہے۔ اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ان میں سے کئی گروپ ایک دوسرے سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنے وہ امریکہ سے کرتے ہیں۔ لیکن ان کا شمار ایک ہی زمرے میں کرکے ہم نے نہ صرف ایک ایسا دشمن بنالیا ہے جس میں کوئی تفریق نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو اپنا دشمن بنالیا ہے جو حقیقت میں ہمارے دشمن تھے ہی نہیں۔
ڈینیل گرین: رضا اثلان مذاہب کے عالم ہیں، مسلمان ہیں اور مغرب اور بنیاد پرست اسلام پرستی کے درمیان "عالمی کائناتی تصادم" کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔ ان کے مطابق ایسے تصام جنہیں مذہبی جنگوں کا نام دیا جاتا ہے، ان کی وجہ سے اتنا تشدد برپا ہوجاتا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امن حاصل کرنے کے لئے ہمیں ان بیانات اور بنیادی وجوہات کو سمجھنا ہوگا جن کی وجہ سے یہ تصادم پروان چڑھ رہا ہے۔
سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز ہےجو اولیور اور الیزبیتھ اسٹینٹن فاؤنڈیشن کے بھرپور تعاون کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ میں ڈینیل گرین ہوں۔ ہر دوسرے ہفتے ہم ایک مہمان کو دعوت دیتے ہیں جو اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ سام دشمنی اورنفرت کس طرح ہماری دنیا کو متاثر کرتے ہيں۔ ہم "خدا کے سوا کوئی خدا نہیں" کے مصنف رضا اثلان سے بات کررہے ہیں۔
رضا اثلان: ہم سے بار بار یہی کہا جاتا ہے کہ ہم ایک نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور یہ سچ ہے۔ لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایک نظریاتی جنگ صرف بندوقوں اور بموں سے نہیں جیتی جاتی۔ یہ بات تو کسی کو بھی سمجھ میں آ جائے گی۔ اور نظریات کی جنگ میں آپ کا سب سے طاقتور ہتھیار آپ کے الفاظ اور بیانات ہیں۔
دہشت گردی کی جنگ کو اچھائی اور برائی کے درمیان عالمی جنگ سمجھ کر ہم نے اپنے لئے کافی مشکلات کھڑی کرلی ہیں کیونکہ ہم جتنی بھی کوشش کرلیں اور ہم واقعی بہت کوشش کررہے ہیں، ہم ان جنونیوں سے زیادہ جنون کا مظاہرہ نہیں کرسکتے ہیں۔
یہ جنگ پروپیگنڈے کی جنگ ہے۔ میں اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہتا کہ ایک فوجی مہم چلائی جارہی ہے جس میں لاتعداد انسانی جانوں کا نقصان ہورہا ہے۔ لیکن وہ جنگ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے مختلف ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ حقیقی جنگ نہیں ہے۔ یہ پروپیگنڈا ہے۔ یہ مارکیٹنگ کی جنگ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کیا جانا چاہئیے۔ ہم بار بار دل اور دماغ جیتنے کی بات کرتے ہیں اور دل و دماغ جیتنے کا مطلب پروپیگنڈا ہی ہے۔ لہذا اس میں پروپیگنڈا شامل ہے۔ بس ہم نے اسے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں ہے اور ہم ایسا کرنے کی مکمل صلاحیت بھی نہیں رکھتے ہیں۔
اسلامی دنیا کی واضح اکثریت سمجھتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ درحقیقت اسلام کے خلاف جنگ ہے۔میرا مطلب ہے اسلامی دنیا کی واضح اکثریت۔ آئیے کچھ دیر کیلئے ایمانداری سے سوچیں۔ ہم اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیتے ہیں لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں ، ہم ای ٹی اے (علیحدگی پسند عسکریت تنظیم) کے خلاف نہیں لڑ ررہے ہیں۔ ہم یقیناً کسی باسک علیحدگی پسند تنظیم کے خلاف جنگ نہیں لڑرہے۔ ہم نے تامل ٹائگر کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کیا ہے جو ہندو قوم پرست ہیں۔ لہذا یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے بلکہ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ اور اب یہ اسلام کے خلاف جنگ بن گئی ہے۔
اب ہم میں سے کئی افراد کو ایسے لوگوں کے لئے جواب دہ ہونا پڑ رہا ہے جن کے ساتھ نہ تو ہمارے عقائد ملتے ہیں، نہ ہی ہمارا مذہب، ثقافت، اقدار اور روایات۔ لیکن ہمیں ان کے اعمال کے لئے جوابدہ ٹھہرایا جارہا ہے۔
"عرب دنیا" سے کیا مراد ہے؟ انہیں کونسی چیز متحد کرتی ہے؟ قطعا زبان نہیں ہے۔ ان کا مذہب نہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے یہ بات بھول جائيں کہ 20 فیصد عربوں کا تعلق عیسیائی مذہب سے ہے۔ اس کے علاوہ سنی ہیں، شیعہ ہیں، احمدی ہیں۔ عرب دنیا میں مختلف قسم کی مذہبی روایات پائی جاتی ہیں۔ لہذا اس وقت اسرائیل کے علاوہ عرب ممالک کو کونسی چیز متحد کرتی ہے، اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ بنیادی طور پر اسرائیل۔ خصوصی طور پر فلسطینی حامی انتفاضہ پروپیگنڈا عربوں کو متحد کرنے کی نئی وجہ بن گیا ہے۔ مراکش کے شہری کو کسی مصری یا عراقی یا لبنانی سے جوڑنے والی چیز ایک مشترکہ خیال ہے کہ باہر ایک ایسا دشمن بیٹھا ہے جو ان کے علاقوں میں سیاسی، مذہبی، سماجی یا معاشی اصلاح کی کمی کا ذمہ دار ہے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ عرب ممالک کے بیشتر مطلق العنان حکمران، اور یہ سب کے سب آمر ہی ہیں، اس بات کا فائدہ اٹھا کر سیاسی، سماجی یا معاشی ترقی کی کمی کے حوالے سے اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں۔
میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ اگر ہم واقعی اس علاقے میں ڈرامائی انداز میں سیاسی، سماجی اور مذہبی اصلاح دیکھنا چاہتے ہیں، یہ جنگ کے ذریعے ممکن نہیں ہوگا۔ یہ کسی بیرونی اثر کی وجہ سے، کسی جمہوریت کے عمل کی وجہ سے ممکن نہیں ہوگا۔ اس اصلاح کو ممکن بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ان سے وہ بے ساکھی چھین لی جائے جسے وہ گزشتہ تیس سال سے اصلاح کی ذمہ داری سے جان چھڑانے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہ بے ساکھی اسرائیل فلسطین کا تصادم ہے۔
جب آپ کسی عرب سے اس کے یہودیوں کے خلاف تصورات کے بارے میں بات کرتے ہیں، آپ کو یہ اندازہ ہوگا کہ یہ ان کی اسرائیل کے متعلق رائے سے مختلف نہیں ہے۔ اور زیادہ تر افراد کے لئے یہ محض چالاکی نہیں ہے۔ وہ واقعی "یہودی" اور "اسرائیلی" کے درمیان، "یہودی" اور "سیہونیت" کے درمیان فرق نہیں سمجھ پاتے ہيں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں، اور اسرائیل بھی یہ بات واضح کرتا ہے، کہ تمام یہودی، اپنی قومیت، ثقافت یا نسل سے قطع نظر، اسرائیل کے حقیقی شہری ہیں۔ لہذا انہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ کوئی یہودی ہو کر اسرائیل پر تنقید کیسے کرسکتا ہے یا کوئی یہودی ہو کر سیہونیت کا مخالف کیسے ہوسکتا ہے۔ عرب ممالک میں "سیہونیت" اور "یہودی" کا مجموعی مطلب "وہ لوگ" ہی ہیں۔
کئی سال تک اسرائیل اور فلسطین کے تصادم کو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم کا نام دیا جارہا تھا۔ لیکن یہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ نہیں ہے۔ یہ کسی عقیدے یا نظریے کا تصادم نہیں ہے۔ یہ زمین، علاقے، وسائل اور حقوق کی جنگ ہے۔ جب تک ہم اس تصادم کو بلکہ ان تمام قسم کے تصادم کو مذہب کے رنگ میں ڈھالنے سے گریز نہیں کریں گے، ہم کبھی بھی ان کا سامنا نہیں کرسکیں گے کیونکہ مذہبی جنگوں کو جیتا نہیں جاسکتا ہے۔ انہیں جیتا نہیں جاسکتا ہے۔ انہیں ہارا نہیں جاسکتا ہے۔ یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے کیونکہ ان کائناتی جنگوں کو لڑنے والوں کے دماغ میں کوئی زمین، علاقہ، سیاسی یا سماجی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنی شناخت کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اور جب اس پر بات آتی ہے تو سمجھوتے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے۔ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تصفیے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شناخت کی جنگ کو ہارا نہیں جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے جیتا بھی نہیں جاسکتا ہے۔