11 ستمبر 2001 کے کچھ ہی دیر بعد رابرٹ سیٹلوف ہالوکاسٹ دور کے عرب ہیروز کی تلاش میں رباط۔ مراکش چلے گئے۔ اُنہیں سے سنئیے کہ اُنہوں نے یہ تلاش کیوں کی تھی۔
Transcript
کچھ ایسے عرب تھے جنہوں نے نازیوں اور یورپ کے دوسرے فاشستوں کے ساتھ تعاون کیا لیکن کچھ ایسے عرب بھی تھے جنہوں نے تعاون سے انکار کر دیا۔ اِس لحاظ سے عرب یورپی افراد سے مختلف نہ تھے۔ بیشتر اپنے گرد بسنے والے یہودی افراد کی قسمت سے لاتعلق تھے۔ بعض افراد نے تعاون کیا اور ایک نسبتاً چھوٹی لیکن بہت اہم تعداد نے تعاون سے انکار کر دیا اور یہودیوں کو بچانے میں مدد دی۔
ڈینیل گرین: دنیائے عرب میں وسیع پیمانے پر ہالوکاسٹ سے انکار پر مصنف رابرٹ سیٹلوف نے اُس ایک عرب کی شہادت اور گواہی کی تلاش شروع کر دی جس نے ہالوکاسٹ کے دوران ایک یہودی کو بچایا تھا۔ تلاش کے دوران سیٹلوف کو جو کچھ معلوم ہوا وہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران شمالی افریقہ میں یہودیوں اور عربوں کے درمیان پیچیدہ تعلقات کی ان کہی تاریخ تھی۔ اُنہوں نے اپنی کتاب “Among the Righteous: Lost Stories from the Holocaust’s Long Reach Into Arab Lands” میں اِن تجربات کو یاد کیا ہے۔
میں آپ کو"سام دشمنی کے خلاف آوازیں" یعنی "Voices on Antisemitism" میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم کی مُفت پاڈ کاسٹ سیریز کا ایک حصہ ہے۔ میں ڈینیل گرین ہوں۔ ہم ہر دوسرے ہفتے آج کی دنیا پر مختلف حوالوں سے سام دشمنی اور نفرت کے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے ایک مہمان کو مدعو کرتے ہیں۔ آج کے مہمان ہیں مؤرخ رابرٹ سیٹلوف۔
رابرٹ سیٹلوف: ظاہر ہے ہالوکاسٹ مکمل طورپرایک یورپی داستان ہے۔ اسے یورپین لوگوں نے تخلیق کیا، اُنہوں نے ہی اِس کا تانا بانا بنا اور پھر یورپ میں ہی اس کا اطلاق بنیادی طور پر یہودیوں اور دوسرے افراد پر ہی کیا گیا۔ لیکن دنیائے عرب میں بھی اِس کا اہم لیکن نظر انداز کیا ہوا ایک پہلو بھی موجود ہے۔ جرمنوں اور اُن کے حلیفوں نے بالکل شروع سے دنیا کے بارے میں اپنے تصور اور نظرئیے اُن تمام مقامات پر مسلط کرنے کی کوشش کی جن کے بارے میں جرمنوں کو اُمید تھی کہ وہ فتح کر کئے جائیں گے اور اِس میں کاسابلانکا سے قاہرہ تک کا وسیع علاقہ شامل بھی ہے۔ اب حالیہ شہادتیں بتاتی ہیں کہ اِس میں فلسطین کا علاقہ بھی شامل تھا۔ شکر کا مقام ہے کہ دنیا کے اس حصے میں جنگ 1943 کے وسط میں ختم ہو گئی اور اسی لئے وہ مکمل طور پر اپنا نظریہ وہاں لاگو کرنے کے قابل نہ رہے۔ لیکن اُنہوں نے اِس سلسلے میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ مراکش ، الجزائر، لبیا اور تیونس میں لیبر کیمپوں میں ھزاروں یہودیوں کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔
اور عربوں کا اِس کے ہر مرحلے پر ایک کردار رہا۔ اُنہوں نے حکومتی سطح پر کردار ادا کیا جہاں عرب گارڈ موجود تھے۔ عرب تربیت یافتہ انجینئر تھے۔ عرب مترجم تھے۔ تیونس میں عرب SS نشان کے ساتھ گھر گھر جاکر شناخت کرتے کہ کون سے مکانات یہودیوں کے تھے اور کن مکانوں میں یہودی نہیں رہتے تھے۔ ہر مرحلے پر عربوں نے ایک کردار ادا کیا۔ یہ بات قابلِ یقین ہے کہ بعض ایسے عرب بھی تھے جنہوں نے ہر ممکن طریقے سے مدد کی یہاں تک کہ یہودیوں کو نجات دلا کر اُن کی جانیں بچائیں۔
11 ستمبر کے واقعے کے کچھ ہی دیر بعد میں اپنے خاندان کے ہمراہ شمالی افریقہ چلا گیا جہاں میں نے ہالوکاسٹ کے ایسے عرب ہیروز کی تلاش شروع کی۔ میرا مظلب ہے مثال کے طور پر 1941 یا 1942 کے الجزائر کے بارے میں ایک حیرت انگیز کہانی ہے جہاں مساجد کے تمام اماموں نے ایک حکمناہ جاری کیا جس میں الجزائر کے مسلمانوں کو یہودی ملکیت کا نگران بننے سے روکا گیا جو جنگ کے ابتدائی برسوں میں انتہائی سودمند کاروبار تھا۔ کسی بھی عرب کسی بھی مسلمان نے وکی حکومت کی طرف سے یہودی املاک کی نگرانی کو قبول نہیں کیا۔ یہ ایک زبردست کہانی ہے جس کا ہمیں ذکر کرنا چاہئیے کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے اور عربوں کو بھی اس پر فخر کرنا چاہئیے اور اس پر یہودیوں کو یہ جاننا چاہئیے کہ یہ اِس پچکاری کا ایک حصہ ہے۔
مجھے لوگوں کی طرف سے ایسے پیغامات موصول ہوئے جن میں بنیادی انسانیت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ جس سے معلوم ہوا کہ ممکن ہے لوگوں نے اپنی جانیں خطرے میں نہ ڈالی ہوں لیکن اپنی انتہائی عزیز چیزوں کو داؤ پر لگا دیا ہو۔ اِن لوگوں کے بارے میں کبھی معلوم نہ ہو سکے گا۔ تاریخ اِن ہیروز کے ناموں سے کبھی واقف نہ ہو گی۔ لیکن میرا خیال ہےیہ یاد رکھنا اہم ہے کہ یہ بنیادی انسانیت کا جذبہ جس کا مظاہرہ عربوں کی طرف سے یہودیوں کے لئے بہت مشکل حالات میں ہوا۔ شدید مظالم کے دوران یہ برادرانہ جذبات موجود رہے۔ اِن کو یاد رکھنا چاہئیے اور جو اُن کی حقیقت تھی اُنہیں اُسی طرح تسلیم کیا جانا چاہئیے۔