Start of Main Content

حسن سربخشیاں اور پروانیح واحدمانیش

حسن سربخشیاں اور پروانیح واحدمانیش نے اپنی کتاب ایرانی یہودی کے لئے ایران میں کم ہوجانے والے یہودیوں سے کہانیاں اور تصویریں جمع کی ہیں۔ ان کوششوں کی وجہ سے انہيں اپنے ملک ایران سے فرار ہو کر ریاستہائے متحدہ امریکہ جانا پڑا۔

Transcript

ایلیسا فش مین:

سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائيٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کی جانب سے جاری ہونے والی ایک پوڈکاسٹ سیریز ہے، جو ایلزبتھ ایںڈ اولیور اسٹینٹن فاؤنڈیش کے تعاون کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ میرا نام ایلیسا فش مین ہے۔ ہر مہینے، ہم اپنی دنیا میں سام دشمنی اور نفرت کے اثرات پر غور کرنے کے لئے مہمان مدعو کرتے ہيں۔

اس ماہ ہمارے ساتھ ایرانی فوٹوگرافر اور دستاویزی فلموں کے پروڈیوسر حسن سربخشیاں اور انسانی حقوق کے کارکن پروانیح واحد مانیش موجود ہيں۔ 2006 میں سربخشیاں اور واحدمانیش نے اپنی کتاب ایرانی یہودی کے لئے ایران میں کم ہونے والے یہودیوں سے کہانیاں اور تصویریں جمع کیں۔ ان کوششوں کی وجہ سے انہيں اپنے ملک ایران سے فرار ہو کر ریاستہائے متحدہ امریکہ جانا پڑا۔ اس انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے یہ منصوبہ کیوں شروع کیا اور مشکلات کے باوجود اُنہوں نے اس کی نمائش جاری رکھنے کا فیصلہ کیوں کیا۔

حسن سربخشیاں:

میرا نام حسن سربخشیاں ہے، میں ایک فوٹوگرافر ہوں اور دستاویزی فلمیں بھی بناتا ہوں، اور اب میں ورجینیا میں رہتا ہوں۔

پروانیح واحدمانیش:

میرا نام پروانیح واحدمانیش ہے۔ میں واشنگٹن ڈی سی میں فریڈم ہاؤس میں پروگرام افسر ہوں۔

حسن سربخشیاں:

میں تہران کے شمال مشرق میں واقع تبریز میں ایک مسلمان کی حیثیت سے پیدا ہوا تھا۔ میں نے دس سال ایران میں ایسوسیٹڈ پریس کے لئے کام کیا ہے۔

پروانیح واحدمانیش:

میری پیدائش ایران اور عراق کی جنگ کے تین ماہ بعد 1980 میں تہران میں ہوئی تھی۔ میرے گھرے والے مسلمان تھے، لیکن میری دادی یہودی تھیں، جنہيں نوے سال پہلے زبردستی مسلمان بنا دیا گيا تھا۔ وہ داماوند نامی شہر میں رہتی تھیں، جہاں کی حکومت نے تمام یہودیوں کو زبردستی مسلمان بنایا تھا۔ میرا خاندان کچھ پیچیدہ ہے۔ اور میں نے ایران میں یہودیوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لئے حسن کے ساتھ کام کرنا شروع کیا، اور میں 2009 میں امریکہ آ گئی۔

ایلیسا فش مین:

سربخشیاں کہتے ہيں کہ انہيں ہمیشہ ہی سے اقلیتوں اور اکثریت کے اندر غیر نمایاں ہو جانے والی برادریوں کی تصویریں بنانے کا شوق تھا۔ یہودیوں کی صورت حال بھی کچھ یوں ہی ہے۔ یہودی عورتوں کے لئے گھر سے باہر حجاب پہننا ضروری ہوگيا ہے اور سناگاگ بھی علامات پوشیدہ رکھ کر نظر میں نہيں آتے ہيں۔ واحدمنیش کو 16 سال کی عمر میں اپنی دادی کی یہودی وراثت کا معلوم ہوا، اور انہيں اس وقت تجسس ہوا۔

پروانیح واحدمانیش:

مجھے جب اپنی دادی کے بارے میں سمجھ میں آنے لگا تو میں نے یونیورسٹی میں تاریخ کا مطالعہ شروع کیا، میں انقلاب کے بعد ایرانی یہودیوں کے بارے میں اپنا تھیسس لکھنا چاہتی تھی، لیکن میرے پروفیسر نے مجھے سمجھایا کہ یہ بہت خطرناک ہے اور مجھے اس سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ میں اپنے تھیسس کے لئے اس پر کام نہ کرسکی، لیکن میں نے خود سے اپنے لئے تحقیق شروع کردی۔ اور اپنی تحقیق اور یہودیوں اور یہودی برادریوں سے ملاقات کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ ان کی وراثت ختم ہونے والی ہے، کیونکہ یہ مشکلات کی وجہ سے ملک چھوڑ کر جا رہے ہيں۔ آج ایران میں یہودیوں کی تعداد پچیس ہزار ہے، جب کہ ایرانی انقلاب سے پہلے یہ ایک لاکھ سے زيادہ تھی۔ میرے خیال میں یہ وہ وقت ہے جب ہم ان کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہيں۔

ایلیسا فش مین:

یہودی برادری میں بے یقینی کی یفیت سے باہر نکلتے ہوئے سربخشیاں اور واحدمانیش کو ان کی گھریلو زندگی کے نجی لمحات اور تقریبات کے ثبوت جمع کرنے کی اجازت مل گئی۔ انہوں نے پابندیوں، یہودیوں کے خلاف خیالات اور یہودیوں کی تعداد میں کمی کے ساتھ گھر کے باہر کی زندگی پر بھی نظر ڈالی۔

  حسن سربخشیاں:

یہ اس وقت کی بات ہے جب احمدی نژاد نے ہولوکاسٹ سے انکار کیا تھا۔ ایران کے یہودیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسے ملک میں رہتے ہيں جہاں حکومت کی طرف سے انہيں ہر وقت پراپیگنڈے کا سامنا ہے۔ اور میں نے کس چیز کی تصویریں لیں؟ان کی زندگی، وہ تمام لمحے: ان کی عبادت، قبرستان، شادیاں، ان کے ساتھ سفر کرنا۔ ان کے لئے سفر کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ پابندیوں کی وجہ سے دوسرے شہروں میں ان کے لئے کوئی بھی کھانے پینے کی جگہ نہيں ہے۔ ایران میں یہ سب ہورہا ہے۔

پروانیح واحدمانیش:

شاید دس سال بعد یہ کتاب ایک وراثت، ایک تاریخ بن سکتی ہے۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ دس سال بعد ایران میں یہودی نہيں رہیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ سب ملک چھوڑ کر جا چکے ہوں گے۔ شاید بہت بوڑھے لوگ رہنا چاہیں، لیکن نوجوان نسل جانا چاہتی ہے۔ ان کے لئے شادی کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ انہيں اپنے لئے ایک شریک حیات بھی نہيں ملتا ہے۔ اس لئے مجھے لگتا ہے کہ دس سال بعد یہودی کمیونٹی باقی نہيں رہے گی۔

ایلیسا فش مین:

جب سربخشیاں اور واحد مانیش نے اپنی کتاب کی اشاعت کے لئے ایرانی وزارت ثقافت سے اجازت حاصل کرنا چاہی، تو پہلے انہیں خاموشی اور پھر دھمکیوں اور الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔

حسن سربخشیاں:

اپریل 2008 میں میں نے وزارت ثقافت کو یہ کتاب بھیجی۔ ہمارے لئے اس کتاب کو ایران میں شا‏ئع کرنا بہت ضروری تھا کیونکہ ہم لوگوں کو دکھانا چاہتے تھے کہ یہاں کے یہودی کس طرح رہتے ہيں۔ ہم نے ایک سال انتظار کیا۔ ہمیں کوئی جواب نہيں ملا۔ جب میں نے فروری 2009 میں وزیر ثقافت سے ملاقات کی، تو میں نے یہ کتاب خود وزیر کو دی، اور انہيں یاد دلایا کہ ہم اس کتاب کو شائع کرنا چاہتے ہيں اور ہم ایک سال سے انتظار کررہے ہیں۔

ایلیسا فش مین:

دو ماہ بعد، سربخشیاں اور واحد مانیش پر اسرائیل کی حمایت اور جاسوسی کا الزام لگایا گيا۔ وہ دیکھتے رہ گئے اور ان کے آس پاس دوسروں کو ایسے ہی الزامات کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ واحد مانیش پر یہودی مذہب اپنانے کا الزام لگایا گیا، جس کی سزا شریعت کے تحت موت ہے۔ اور سربخشیاں کی تفتیش کی گئی، اور تنبیہہ کی گئی کہ اسے "اپنے بچوں کے بارے میں سوچنا چاہئیے۔" اسے ملازمت کرنے کی اجازت نہيں ملی۔

حسن سربخشیاں:

انہوں نے مئی 2009 میں میرا پریس پاس منسوخ کردیا۔ اور بہت تفتیش ہوئی۔ اور جب آپ کچھ نہيں کرسکتے ہيں آپ کے لئے ملک چھوڑنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اب ہم اس سزا کی وجہ سے واشنگٹن میں ہيں۔

پروانیح واحدمانیش:

جب تفتیش شروع ہوئی تو مجھے بتایا گیا کہ میں یہودیوں کی حمایت کرتی ہوں۔ اور شریعت کے مطابق اگر آپ اسلام چھوڑ کر یہودی مذہب یا عیسائی مذہب اپناتے ہيں، وہ آپ کو قتل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ منع ہے، یہ اسلام میں سب سے بڑا جرم ہے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں نے ایسا کرلیا ہے: میں نے اپنا مذہب تبدیل کرلیا ہے اور میں اسرائیل کے لئے پروپاگینڈا کررہی ہوں۔ اور مجھے بہت ڈر لگنے لگا۔ جب مجھے یونیورسٹی آف ورجینا نے اپریل 2009 میں مدعو کیا۔ میں نے یہاں پناہ کی درخواست دے دی۔ کیونکہ حسن نے مجھے بتایا کہ وہاں بہت خطرہ ہے اور مجھے یہاں رہنا چاہئیے۔ اور مجھے لگا کہ یہ صحیح ہے؛ واپس نہ جاؤ کیونکہ وہ مجھے تحویل میں لے لیں گے۔ یا شاید مجھے مار بھی دیں۔ ایلیسا فش مین:

دونوں اب ریاستہائے متحدہ امریکہ میں رہ رہے ہيں۔ اور ایرانی یہودیوں کے بارے میں اپنے کام کی نمائش کرتے رہتے ہيں۔ اس منصوبے کی تصویروں کی نمائش مارچ 2013 تک یو سی ایل اے کے فاؤلر میوزیم میں جاری رہے گی۔ خود کو بہت نقصان پیش آنے کے باوجود اُن کا خیال ہے کہ ایران کے یہودیوں اور ان کی برادری کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی یہ کوششیں بہت اہم ہيں۔

پروانیح واحدمانیش:

میرا خیال ہے کہ اس منصوبے پر کام کرنے کی سب سے اہم وجہ ملک کی تاریخ کو تحفظ دینا اور اُن لوگوں کو تحفظ دینا ہے جو س وقت نظر انداز ہو گئے ہیں۔ میں نے ان لوگوں کی زندگیوں کے متعلق ثبوت حاصل کرنے شروع کردئے ہیں جو غائب ہونے والے ہيں۔

ایلیسا فش مین:

یہ تھے حسن سربخشیاں اور پروانیح واحدمانیش واشنگتن ڈی سی میں۔