Start of Main Content

امام خالد لطیف اور راہب یہودہ سرنا

راہب یہودا سرنا اور امام خالد لطیف نیو یارک یونیورسٹی کے "آف مینی" انسٹی ٹیوٹ فارم لٹی فیتھ لیڈرشپ کے شریک بانی ہیں۔ وہ مل کر ایک کورس پڑھاتے ہیں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلباء کے درمیان تعاون اور مکالمے کو پروان چڑھانے کے لئے سروس ٹرپس کی سربراہی کرتے ہیں۔

Transcript

راہب یہودا سرنا:

ہم ایک ایسی نسل کو کس طرح پروان چڑھاسکتے ہیں جو ہمارے ملک میں مختلف مذہبی گروہوں کی ضروریات، امیدوں اور وعدوں کے متعلق حساس ہو؟ ہم ایک مضبوط سماجی فیبرک کو کس طرح تیار کرسکتے ہیں؟

الیسا فشمین:

راہب یہودہ سرنا اور امام خالد لطیف نیو یارک یونیورسٹی میں "آف مینی" انسٹی ٹیوٹ فار ملٹی فیتھ لیڈرشپ کے شریک بانی ہیں۔ وہ مل کر ایک کورس پڑھاتے ہیں، اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلباء کے درمیان تعاون اور مکالمے کو پروان چڑھانے کے لئے سروس ٹرپس کی سربراہی کرتے ہیں۔

 سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز  ہے جو اولیور اور الیزابیتھ اسٹینٹن فاؤنڈیشن کی بھرپور حمایت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ میں الیسا فشمین ہوں۔ ہر مہینے ہم ایک مہمان کو دعوت دیتے ہیں جو اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ سام دشمنی اورنفرت کس طرح ہماری دنیا کو متاثر کرتے ہيں۔ واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے دوران  راہب یہودہ سرنا اور امام خالد لطیف کی ریکارڈ کی گئی گفتگو پیش خدمت ہے۔

راہب یہودا سرنا:

میرا نام یہودہ سرنا ہے۔ میں نیو یارک یونیورسٹی میں راہب کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہوں۔

امام خالد لطیف:

میرا نام خالد لطیف ہے اور میں نیو یارک یونیورسٹی کے اسلامک مرکز کا ایگزیکٹو ڈائیریکٹر ہوں اور یونیورسٹی کے پادریوں میں سے ایک ہوں۔

راہب یہودا سرنا:

ہم نے لنڈا ملز اور چیلسی کلنٹن کے ساتھ مل کر جو ادارہ قائم کیا ہے، اس کا نام "آف مینی" انسٹی ٹیوٹ فار ملٹی فیتھ لیڈرشپ ہے۔ اور اس کے پیچھے جو خیال ہے وہ یہ ہے کہ اکیسیوں صدی کے حالات کچھ منفرد ہیں۔ اور ان میں سے ایک صورت حال یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ مذاہب اور ثقافتیں زیادہ تواتر کے ساتھ ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ لہذا اکیسیوں صدی کی ایک بہت اہم صلاحیت ثقافتوں کو اس طرح ایک ساتھ لانا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے سیکھیں اور ایک ساتھ کام کریں، نہ کہ ان کے درمیان تصادم ہو۔

امام خالد لطیف:

2001 میں نیو یارک یونیورسٹی میں میرا  دوسرا سال تھا۔ میں اپنی عربی کی کلاس میں جارہا تھا۔ اور جب میں پہنچا، ایک گارڈ اندر آیا اور ہمیں اپنا سامان اکٹھا کرنے کو کہا۔ اس نے بتایا کہ ہم عمارت کو خالی کررہے ہیں۔ ورلڈ ٹريڈ سنٹر میں ایک جہاز جاٹکرایا ہے۔

جب ہمیں نکالا جارہا تھا، ایک عورت نے مجھے سیڑھیوں سے نیچے دھکا دینے کی کوشش کی۔ جب میں نے پلٹ کر اسے دیکھا، اس کی شکل سے صاف ظاہر تھا کہ وہ مجھے دیکھ کر غصے میں آگئی ہے۔ میں اپنے کمرے میں چلایا گیا۔ میں نے کچھ اس طرح کی گفتگو سنی کہ تمام مسلمانوں کو جمع کرکے ملک سے باہر نکال دینا چاہئیے تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ اور اس وقت ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے، ہمیں (طلباء کو) کئی مختلف ح‍قائق کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں توڑ پھوڑ، نفرت کے جرائم، اور ردعمل کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ہم نے دوست بنالئے تاکہ کسی طالب علم کو کہیں بھی اکیلا نہ جانا پڑے۔ میں نے خود 11 ستمبر کو مرنے والوں کے جنازوں میں شرکت کی، جن میں سے کچھ مسلمان تھے، اور کچھ غیرمسلم۔ اور میں آج جو کام کرتا ہوں، اس میں سے بیشتر اُس سانحے کے اثرات کی وجہ سے ہے۔

راہب یہودا سرنا:

میں آج کل سوچ رہا ہوں کہ خوف کا اپنا الگ قانون، الگ منطق ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی خطرہ ہم سے ہزاروں میل دور ہی کیوں نہ ہو، میڈیا کی وجہ سے بہت قریب محسوس ہوتا ہے۔ اور جب لوگوں کو خوف محسوس ہوتا ہے، تو دنیا رنگین لگنے کے بجائے سیاہ و سفید لگنے لگتی ہے۔ خوف کی وجہ سے انسان کو فوری احساس ہونے لگتا ہے اور وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ کون میرے ساتھ ہے اور کون میرے خلاف ہے۔ بے یقینی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور یہ میرے لئے رسمی بات ہے۔ مجھے احساس ہونے لگتا ہے کہ مجھے فوری طور پر معلوم ہونا چاہئے کہ کیا کوئی گروپ خطرناک ہے یا نہیں۔ اور دنیا میں دوبارہ رنگین بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے، کہ آپ ایسے لوگوں سے دوستیاں کریں، جن کے ساتھ آپ نے پہلے دوستی کرنے کے بارے میں نہیں سوچا ہوگا۔ ہم نے اپنی کلاس میں اسے  ہفتہ وار گھر کا کام بنا لیا ہے کہ لوگ کلاس میں کسی اور کے ساتھ کافی پر جائیں یا کھانے پر جائيں۔ یہ ان کا گھر کا کام ہے۔ انہیں یہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہم جو سکھا رہے ہیں، یہ اس کا ایک اہم حصہ ہے۔

امام خالد لطیف:

اس بات کے باوجود کہ ہم نیو یارک یونیورسٹی میں ہیں، جو بہت  متنوع ہے، یہاں ایسے کئی افراد ہیں جنہوں نے زندگی کے اٹھارہ سال اپنے سے مختلف شخص سے کبھی بھی ملاقات نہیں کی ہے۔ اور سب سے مشکل بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کی کسی مخصوص گروپ سے تعلق رکھنے والے شخص سے ملاقات نہ ہوئی ہو، وہ پھر بھی اس گروپ کے متعلق کوئی نہ کوئی رائے ضرور رکھتے ہیں۔ ہماری کلاس میں ہر رنگ، مذہب، سماجی طبقے اور جنسی رجحان سے تعلق رکھنے والے طلباء ہیں، اور مشترکہ تجربوں کو اس طرح سمجھتے ہیں کہ ان کے دماغ ہی گھوم جاتے ہیں۔ وہ ایسے اسٹیریوٹائپ کا مقابلہ کرتے ہیں جن کے بارے میں انہیں کبھی علم ہی نہیں تھا۔

راہب یہودا سرنا:

2007  میں ہم 15 یہودی طلباء اور 15 مسلمان طلباء کو سمندری طوفان کے متاثرین کی امداد کے لئے نیو آرلینز لے کر گئے۔ اس وقت بہت کام باقی تھا، اور طلباء شہر کی تخلیق نو میں شرکت کرنے کے لئے بے چین تھے۔ اس ہفتے کے دوران ان میں حیرت انگیز تبدیلی آئی۔ میرے لئے وہ آخری رات سب سے زیادہ یاد گار تھی۔ ہم جہاں ٹھہرے ہوئے تھے، وہاں اپنی کیمپ سائٹ پر واپس پہنچے اور آگ جلائی۔ اور طلباء کو اپنی تبدیلی کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملا۔ اور انہوں نے واپس جا کر اپنے والدین اور دوستوں کے ساتھ بات کرنے کے دوران دشواری کے بارے میں بات کی۔ جو ایسی بات کہتے جن سے وہ مزید متفق نہیں تھے یا کسی اسٹیریو ٹائپ کے فروغ میں کہی گئی بات کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ان کی برداشت سے باہر تھا۔

امام خالد لطیف:

میرے خیال میں ہمارے طلباء کو ہماری دوستی دیکھ کر ہی ایک دوسرے سے بات کرنے میں زیادہ آسانی ہوئی ہے۔ ہم نے ایک ایسی جگہ فراہم کی جہاں اپنے اصول اور اقدار پر سمجھوتہ کئے بغیر ایک دوسرے سے بات کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن اس ذہنیت کے ساتھ تعلق نہ جوڑا جائے کہ ہم دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا گیا ہے، بلکہ ایک ایسا ماحول قائم کیا گیا ہے جہاں ایک ساتھ مل کر کچھ تخلیق کیا جاسکے۔ اس کے بعد ہی تعلق جوڑا جاسکتا ہے۔

اور میرے خیال میں ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ہماری وسیع کمیونٹی میں - نیو یارک یونیورسٹی میں 5 سے 7 ہزار یہودی طلباء ہیں، اور 2 سے 3 ہزار مسلمان طلباء - ایک ایسی ذیلی کمیونٹی پروان چڑھنے لگی ہے، جو پچھلے سال کی محنت پر کھڑی کی گئی ہے۔ اور مجھے 2007 میں اس سفر پر جانے والے یہودی طالب علم سے جب بھی ایک ای میل موصول ہوتی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ دنیا میں جو بھی ہورہا ہے، اس کو دیکھ کر میں آپ کے بارے میں سوچ رہا ہوں، تو مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اور آٹھ سال بعد بھی اسی قسم کا رابطہ رکھنا۔ میرے خیال سے تجربہ اسی طرح ثابت ہوا جیسا کہ ہم نے سوچا تھا: اس سے زندگی بدل جائے گ